کتاب ”سیرت سلطان ٹیپوشہید“ پر ایک نظر

از: محی الدین خاں ، سابق لکچرار، موتی نگر، بنگلور

 

حضرت ٹیپوسلطان شہید رحمة الله عليه پر اب تک بے شمار کتابیں فارسی، اردو اورانگریزی زبانوں میں منظرعام پر آچکی ہیں۔ ان میں بہت سی کتابیں خود انگریزی موٴرخین کی بھی ہیں جو نواب حیدرعلی خاں بہادر، شہید ملک وملت ٹیپوسلطان اور سلطنت خداداد کے سخت مخالف اور دشمن تھے، جن کے ہاتھوں ہی سلطان کی شہادت اور سلطنت کا زوال بھی ہواتھا۔ سلطان کی شہادت کے بعد پہلی جامع، مفصل اور مستند کتاب سید میر حسین علی کرمانی کی ”نشان حیدری“ فارسی زبان میں منظر عام پر آئی۔ کرمانی سلطنت خدادا کے بانی نواب حیدرعلی اور سلطان شہید کا معاصر ہی نہیں بلکہ سلطنت خداداد کا نمک خوار بھی تھا۔ اس کتاب کے بعد جتنی بھی کتابیں نواب حیدرعلی وسلطان شہید پر منظرعام پر آئیں ان سب کا یہی کتاب ماخذ ومرجع رہی۔

اس کے بعد سب سے زیادہ مستند ومقبول کتاب محمود خاں محمود بنگلوری کی ”تاریخ سلطنت خداداد“ ہے، جو ۱۹۳۵/ کو منظر عام پر آئی۔

زیربحث کتاب ”سریت سلطان ٹیپو شہید“ جس میں مصنف نے یہ دعویٰ پیش کیا ہے کہ ”سلطان شہید کی زندگی سے متعلق بعض اہم گوشے ایسے بھی تھے جس پراب تک کسی بھی کتاب میں تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی گئی تھی اور وہ پہلو اس (ٹیپوسلطان) کے داعی ومبلغ اسلام اور ایک داعیٴ حق ہونے کاتھا۔ اب تک کی تمام موجودہ کتابوں میں اس کو صرف بحیثیت ایک کامیاب حکمراں، ذہین سیاستداں، قابل منتظم اور بہادر سپہ سالار کے روپ میں پیش کیاگیاتھا۔“

دوسرا دعویٰ ”میر کرمانی اورمحمود خاں بنگلوی نے اپنی کتابوں میں بعض غیرمصدقہ روایات وواقعات کو جگہ دی ہے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے کسی معقول یا مضبوط حوالہ کے بجائے صرف اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے پر اکتفا کیا ہے ”مشہور ہے“ ”کہاجاتاہے“ ”مقامی روایت ہے“ ان کو بنیاد بناکر اہل نوائط کو معتوب وملعون کیا ہے، یہ کہاں کی دیانت داری ہے۔ اہل نوائط سے متعلق اکثر الزامات کے حوالے مقامی روایات ہیں۔ مثلاً محمود بنگلوی اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جب انگریزوں نے (میسور کی آخری جنگ میں) قلعہ کا محاصرہ کیا تو اہل نوائط کے گھروں سے انگریزوں کو پلاؤ اور مٹھائی تقسیم کی جارہی تھی“ اور خود کہتے ہیں کہ یہ مقامی روایت ہے جس کا کوئی حوالہ نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح ایک اور واقعہ بھی لکھا ہے کہ ”سلطان ٹیپو بدرالزماں کی لڑکی سے اپنی برادرنسبتی برہان الدین کا نکاح کرنا چاہتا تھا لیکن اس لڑکی نے اس رشتہ کو غیراہل نوائط ہونے کی وجہ سے اپنی توہین سمجھ کر اسی رات خودکشی کو ترجیح دی۔“

تیسری دعویٰ: ”میسور کی آخری جنگ میں جب فرانسیسیوں نے دارالسلطنت کے انگریزوں کے محاصرہ کے بعد سلطان ٹیپو کو چتل درگ چلے جانے کا مشورہ دیا تو بدرالزماں خاں نائطہ نے یہ کہہ کر سلطان کو روک دیا کہ اس وقت آپ کے جانے سے پوری فوج میں بددلی پھیل جائے گی۔ اس لئے فوجی حکمت عملی کے تقاضہ کے تحت آپ کی موجودگی بے حد ضروری ہے۔ اس کے اس مشورہ کو ہم کیوں کر اس کی بدنیتی پر محمول کرسکتے ہیں جو رائے اس نے پیش کی وہ حقیقت پر مبنی تھی اور سلطان نے بھی اس مشورہ کو مخلصانہ سمجھ کر چتل درگ جانے کے اپنے ارادہ کو منسوخ کردیا۔ لیکن ہم ان سب چیزوں کے باوجود اس کا بھی فیصلہ نہیں کرتے کہ بدرالزماں خاں واقعی ذاتی طور پر اپنے دل سے بھی سلطان کا مخلص اور خیرخواہ تھا۔ لیکن جب تک اس کے متعلق غداری کے واضح ثبوت ہمیں نہیں ملتے اس کو ہم بے وفا ثابت کرنا دیانت داری وانصاف کے اسلامی اصولوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے اس (بدرالزماں) کی ایک دفعہ نظربندی کا تو جیساکہ معلوم ہوا کہ یہ سب کھیل میرصادق نے اس سے اپنی ذاتی دشمنی کی بناء پر کیا تھا جس طرح اس نے ملک جہاں خاں کو غلط الزامات لگاکر سلطان کی شہادت تک مقید رکھا تھا، اس طرح کی ذلیل حرکتیں اپنے عہدہ و منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاکر میرصادق کسی سے اپنی ذاتی دشمنی نکالنے کے لئے ہمیشہ عادی تھا۔ اس لئے صرف اس کی نظربندی کو بنیاد بناکر اس کی سلطان سے بے وفائی یا غداری ثابت کرنا ہمارے لئے مشکل ہے۔“

میرحسن علی کرمانی کی کتاب ”نشاند حیدری“ کے تتمہ میں جو تاریخ درج ہے وہ ۱۳/فروری ۱۸۰۳/ ہے جو سلطان کی شہادت )۵/مئی ۱۷۹۹/) کے صرف چار سال بعد کی ہے۔ ممکن ہے اشاعت آٹھ سال بعد ہوئی ہو۔ یہ بھی درج ہے کہ یہ کتاب سلطان کے شہزادوں یا ایک شہزادے کے اصرار پر لکھی گئی تھی۔ نیز اس کتاب کو مصنف نے اپنی بے انتہا مصروفیت، کثرت مشاغل، سفر وحضر کی مشکلات کے باوجود مکمل کیاہے۔ یہ مصنف کا خود ساختہ دعویٰ اور کرمانی پر بہتان ہے کہ ”کرمانی نے اپنی کتاب سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں کے حکم و اصرار پر کلکتہ میں اپنی نظربندی کے دوران لکھی تھی۔“ کرمانی کی انگریزوں کے پاس نظربندی سے متعلق صرف جناب محب الحسن نے اپنی کتاب ”تاریخ ٹیپوسلطان“ میں تحریر تو کیاہے مگراس کا کوئی مستند حوالہ نہیں دیا ہے۔

محمود خاں بنگلوری جو سلطان شہید کے پڑوسی ہیں اپنی کتاب (تاریخ سلطنت خداداد) میں سلطان کے موافقین و مخالفین کی کتابوں کو کھنگالنے اور تمام کھرے کھوٹے حقائق و واقعات کی ممکنہ حد تک جانچ پڑتال کرنے کے علاوہ خصوصاً سرنگاپٹم کے ان تمام اجڑے ہوئے تاریخی مقامات کا بچشم دید مشاہدہ ومطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں خصوصاً معمر بزرگوں سے مل کر صحیح حقائق و واقعات کا ادراک کیا ہے۔ جس وقت ۱۹۳۵/ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن منظر عام پر آیا سلطنت خداداد کے زوال کو صرف ۱۳۵ سال کا عرصہ گزرا تھا۔ (۱۳۵ سال میں سے ۷۰/۸۰ سال جن معمربزرگوں سے محمود خاں نے ملاقات کی ہے وضع کردئیے جائیں تو بمشکل ۵۰/۶۰ سال پرانے واقعات) عوام الناس کوباپ، دادا سے سن کر محفوظ رکھنا کچھ بعید از قیاس نہیں۔ جب کہ بعض معمولی معمولی قسم کے حقائق وواقعات صدیوں تک نسل درنسل بیان ہوتے رہتے ہیں چہ جائے کہ ایسے مشہور ومعروف واقعات۔ مولانا حکیم عبدالحئی حسنی  رحمة الله عليه سابق ناظم ندوة العلماء لکھنوٴ نے اپنی کتاب ”ہندوستان اسلامی عہد میں“ میں کئی جگہوں پر جن تاریخی مقامات وواقعات کا ذکر کیا ہے اس میں بھی ”مشہور ہے“ اور ”کہا جاتا ہے کہ“ جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مثلاً بابری مسجد کے بارے میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ ”یہ مسجد بابر نے اجودھیا میں تعمیر کی تھی، جسے ہندو رام چندر جی کی جائے ولادت ”کہتے ہیں“۔ ان کی بیوی سیتا کا واقعہ مشہور ہے، ”کہاجاتاہے“ کہ سیتا کا یہاں ایک مندر تھا․․․“ جب یہ اور اسی طرح دوسرے موٴرخین کی کتابیں بھی ہیں تو کرمانی اور محمود خاں کی کتابوں ہی سے ایسا نارواسلوک کیوں؟ حالانکہ کرمانی نے اپنی کتاب میں کسی بھی جگہ اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کئے ہیں۔ اور نہ ہی اس کو اس کی ضرورت ہی تھی، کیونکہ وہ خود اپنی آنکھوں دیکھی اور اپنے دور کے حقائق وواقعات بیان کررہا ہے۔

مصنف کا یہ کہنا کہ کرمانی اور محمود خاں نے اپنی کتابوں میں بعض غیرمصدقہ روایات وواقعات کو جگہ دی ہے اور مقامی روایات کو بنیاد بناکر اہل نوائط کو معتوب وملعون کیا ہے یہ کہاں کی دیانتداری ہے؟ اس کا کیا مطلب ؟ کیا ان دونوں کتابوں میں موصوف کو صرف اہل نوائط ہی کے متعلق غیرمصدقہ روایات نظر آئے؟ خود انگریزی موٴرخ کرنل ولکس نے اپنی تاریخ مرتب کرنے میں بدرالزماں نائطہ سے (جوکہ سقوط سرنگاپٹم کے بعد بھی ایک عرصہ تک انگریزوں کے ٹکڑوں پر زندہ رہا) بہت مددلی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ اس (بدرالزماں) کی باتوں میں سچائی نہیں ہوتی تھی۔ آخر کیا بات ہے کہ تمام موٴرخین ہاتھ دھوکر اہل نوائط کو بدنام کرنے میں جٹ گئے ہیں۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جہاں جہاں اور جن جن افراد کے بارے میں بھی آپ کی نظر میں جو غیرمصدقہ روایات و واقعات جگہ پاچکے ہیں ان سب کی نشاندہی کرتے۔ یہاں پر بھی مصنف کا یہ بہتان ہے کہ کرمانی نے مقامی روایات کو بنیاد بنایا ہے۔ اس طرح کا ایک لفظ یا ایک روایت بھی اس کتاب میں مذکور نہیں ہے۔

جہاں تک بدرالزماں نائطہ کی غداری کا مسئلہ ہے اس کی اس نظربندی (قید) سے بھی بڑا اور کوئی ثبوت چاہئے؟ کیا یہ ایک ثبوت ناکافی ہے؟ خود میر صادق کو سلطان شہید نے ایک مرتبہ نظربند کیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد سلطان ہی نے اس کو رہائی دے کر دوبارہ اسی عہدہ پر بحال کردیا بلکہ بعد میں مزید اس سے بھی بڑا عہدہ (وزیراعظم) تفویض کئے جانے کے باوجود اس نے سلطان سے صرف اس نظربندی کا بدلہ برابر نمک حرامی سے لیتا رہا اور سلطنت کے زوال کا سب سے بڑا سبب یہی مردود وملعون بنا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے افراد کی مثالیں ہیں جن کو سلطان نے مختلف وجوہات کی بنا پر صرف ایک ہی مرتبہ نظر بند کیا تھا، جیسے میر قمرالدین، غلام علی لنگڑا اور میرقاسم علی وغیرہ، بعد میں رہائی دے کر دوبارہ ان کو ان کے سابقہ عہدوں پر بحال کئے جانے کے باوجود انھوں نے سلطان سے نمک حرامی کی۔ دوسروں کی غداری کے اثبات کے لئے ان کی صرف ایک مرتبہ کی نظربندی کافی ہے تو بدرالزماں خاں کے لئے اتنا ہی ثبوت ناکافی کیوں؟ اس کے برعکس مرہٹی بھگوڑا نومسلم ملک جہاں خاں (ڈونڈیا داغ) کو آخری وقت یعنی سقوط سرنگاپٹم ایک طویل عرصہ تک نظربند رکھے جانے کے باوجود اس نے زوال سلطنت کے دن وہاں سے گلوخلاصی حاصل کرکے سلطان ٹیپو کے بڑے شہزادے فتح حیدر سلطان سے (جوکہ سقوط سرنگاپٹم کے وقت کری گڑ کی پہاڑی کے اس پارتھا) مل کر انگریزوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے بلکہ ان کے خلاف برسرپیکار رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر شہزادے نے بعض وجوہات کی بنا پر ہتھیار ڈال دئیے۔ اس کے باوجود اس نمک حلال ملک جہاں خاں نے بچے کچے مٹھی بھر جنگجوؤں کو ساتھ لے کر دوڈھائی سال تک ایک مستقل عذاب کی طرح دشمنان سلطنت خداداد انگریز، نظام اورمرہٹوں کا ناک میں دم کئے ہوئے تھے۔ اس کو کہتے ہیں نمک حلالی۔

دوسری بات یہ ہے کہ جہاں تک سلطان ٹیپو کے نمک حلال جانثاروں کا تعلق تھا سب نے مع فرانسیسیوں کے ایسے نازک وقت میں سلطان کو یہی مشورہ دیا کہ آپ خاموشی سے نکل کر چتل درگ روانہ ہوجائیں۔ اس کے برعکس جتنے بھی نمک حرام اور آستین کے سانپ غداران جیسے میرصادق، پورنیا، بدرالزماں نائطہ، غلام علی لنگڑا، میر معین الدین اور میر قمرالدین انھوں نے سلطان کو ہر ممکن طریقے سے روکنے ہی کی کوشش کی تاکہ درپردہ انگریزوں سے ان کی جو پلاننگ تھی اور ان کے ناپاک ہاتھوں تھوڑی سی حقیر جائیداد یا چندسکوں کی خاطر بک چکے تھے کہیں فیل نہ ہوجائے اور سارے کئے کرائے پرپانی نہ پھیر جائے۔

یہاں پر قابل موٴرخ نے صرف بدرالزماں کی غداری کو اس کے خیرخواہ یا بدخواہ ہونے کے فیصلہ کو اللہ کے سپرد کرکے تیسری جنگ میں میرصادق وپورنیا کا رول نبھانے والے سب سے بڑے نمک حرام وملت فروش دیوان مہدی علی نائطہ (سابق وزیراعظم) کی کھلی غداری سے اس کو مرادآباد کا مسلکاً شیعہ بتلاکر آگے بڑھ گئے ہیں۔ جبکہ تاریخ میں متفقہ طورپر اس کا اہل نوائط سے ہونا ثابت ہے۔ تیسری جنگ میں جگ سرنگاپٹم محصور ہوگیا تو ان احسان فراموش نے عیدگاہ کا مورچہ جو اسی کے سپرد تھا اس قیامت خیز ہنگامے کے باوجود سلطان کے حکم کے بغیر ہی فوج میں ماہانہ تنخواہوں کی منادی کرکے مقابلہ کئے بغیر ہی انگریزوں کے سپرد کردیا۔ بدرالزماں نے تو صرف سلطان کو چیتل درگ نہ جانے کا مشورہ دیا تھا جب کہ مہدی علی نے ایک اہم مورچہ بغیر کسی مزاحمت کے یونہی چھوڑ دیا۔ نیز جنگی آلات و اوزار کے داروغہ کو اپنی مٹھی میں کرکے ”سن“ اور ”مٹی“ کے گولے تیار کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ اس سے فرنگیوں کاجانی نقصان نہ ہو (چوتھی جنگ میں میرصادق وپورنیا نے بھی یہی کارآمد طریقے اپنائے تھے) اس معرکہ سے قبل ہی جاسوسی اور غداری کا راز فاش ہوجانے کی وجہ سے بہت سے غداروں کو مثلاً سیدامام، لال خاں بخشی، میرنذر علی موکبدار اور اس کا بھائی اسمٰعیل خاں رسالدار وغیرہ بحکم سلطانی موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ اس کے باوجود سلطنت میں سلطان کے بعد سب سے بڑا عہدے دار ہونے کے اس ننگ آدم مہدی علی نائطہ نے اتنی بڑی غداری کی۔ کرمانی نے لکھا ہے کہ ”سلطان نے ان سازشوں اور غداریوں کی تحقیقات شروع کرائی جن کی وجہ سے یہ شرعظیم برپا ہوا تھا۔ جب تمام عہدہ داروں، ملازموں اور ساہوکاروں کے اعمال کا جائزہ لیاگیا تو پتہ چلا کہ یہ ساری سازش سلطان کے مدارالمہام (وزیراعظم) مہدی علی خاں نائطہ کی برپا کی ہوئی تھی۔ وہ چند کرناٹکی ساہوکاروں اور دوسرے نمک حراموں کے ساتھ درپردہ انگریزوں سے ملاہوا تھا اور اپنے آقا کے ناموس و خانوادہ کو بربار کردینا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نمک حرام نے نظم ونسق کے سارے شعبوں اور ذخائر میں ابتری پھیلارکھی تھی۔ یہاں تک کہ اکثر توپوں کو عین لڑائی کے وقت اس بدبخت نے ریت اور مٹی سے بھروادیا تھا اس لئے توپچی موقع پر ان کو استعمال کرنے سے معذور رہ گئے تھے۔ اس تحقیقات کے بعد جتنے اشخاص مجرم ثابت ہوئے سلطان کے حکم سے ان کو کیفرکردار تک پہنچادیا گیا۔ اور ان خانہ خرابوں کا مال ومتاع، گھر بار ضبط کرلیاگیا۔“

قابل مصنف اپنے پرکھوں کو غداری کے کلنک سے بچانے اور معصوم ثابت کرنے کیلئے کھلی دھاندلی، علمی بددیانتی اور اپنی مرضی کے مطابق واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے معصوم افراد کو ملزم ٹہرارہے ہیں، آخر یہ کہاں کی دیانت داری اور کون سے اسلامی اصولوں کے تحت ہے؟ قابل مصنف بدرالزماں کو غداری کے کٹہرے سے نکال ان چند ناقابل فراموش جانثاروں کے کٹہرے میں لاکھڑا کراس کے حق وناحق پر سرخی قائم کرکے فیصلہ اللہ کے سپرد کررہے ہیں تو مہدی علی کی اتنی بڑی غداری کو غداروں کے کٹہرے میں لاکھڑا کئے اور اس پر سرخی قائم کئے بغیر فیصلہ کس کے سپرد کررہے ہیں؟ مصنف کا یہ کہنا کہ اگر سلطان کو مجموعی طور پر اس قبیلہ (اہل نوائط) پر بھروسہ نہیں ہوتا تو وہ اپنی حکومت کے اعلیٰ فوجی ومذہبی مناصب پر انہیں کیسے بحال رکھتا؟ پہلی بات: تاریخ شاہد ہے اور مصنف بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ حیدرعلی کے مقابلے سلطان ٹیپوکتنا رحم دل اور بردبار شہنشاہ تھا۔ معافی مانگ لینے پر وہ غداروں کو بھی معاف کرکے دوبارہ اسی عہدہ پر بحال کردیتا، بلکہ بعض مرتبہ اس سے بھی بڑا عہدہ ان کو تفویض کردیتا تھا جس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ دوسری بات: میرصادق سے پہلے مہدی علی نائطہ ہی دیوان (وزیراعظم) تھاجو غداری ثابت ہونے کے بعد اس عہدہ سے معزول کردیاگیا۔ بقول کرمانی ان سب کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔ اور بعض موٴرخوں کے مطابق مہدی علی کے نسب کا لحاظ کرتے ہوئے اس کو صرف عہدے سے معزول کیاگیا۔ اب رہا بدرالزماں تو اس سے غداری بالکل آخری وقت میں ظاہر ہوئی ہے۔

تاریخ میں اس کی صراحت موجود ہے کہ سلطان سے اہل نوائط کی غداری بدرالزماں کی بیٹی سے سلطان کے نسبتی برادر برہان الدین سے شادی (۱۷۸۴/) ہوجانے کے بعداس کے غیرکفو ہونے کی وجہ سے دلہن کی خودکشی (بقول کرمانی بدرالزماں کی دختر کشی) کے بعد ہی سے شروع ہوچکی تھی اور وہ سلطان سے اس کا بدلہ لینے کیلئے بے قرار اور درپردہ انگریزوں سے مل گئے تھے۔ اسی بنیاد پر مہدی علی نائطہ نے تیسری جنگ (۱۷۹۲/) میں بغیر مقابلہ کے اپنا محاذ انگریزوں کے سپرد کردیا۔ اب آخری معرکہ (۱۷۹۹/) میں پلاؤ اور مٹھائی سے اپنے کرم فرماؤں اور قید سے چھٹکارا دلانے والے نجات دہندوں کی خاطر تواضع کی جائے تو آخر اس میں حرج ہی کیاہے؟ یہ تو حقیقت ہے کہ بغیر آگ کے دھواں نہیں اٹھتا، تو بغیر سازش اور خاطر تواضع کے مقامی طورپر اس کا چرچہ بھی نہیں ہوتا۔

تاریخ میں اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ زوال سلطنت کے بعد غداری کے صلے میں پنڈت پورنیا (دیوان میسور کا عہدہ) میر قمرالدین (گرم کنڈہ کی جائیداد) غلام علی لنگڑا، محمد رضا خطیب، چندمیر میراں، بدرالزماں خاں نائطہ اور غلام علی بخشی وغیرہ باقاعدہ انگریزوں سے حسن خدمات کے صلہ میں اپنا حق سعی اور ماہانہ مشاہرے بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اور تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ غداروں نے جو غداری کی تھی اس کا صلہ وہ سلطان کی شہادت کے چند ہی گھنٹوں میں اپنی آنکھوں کے سامنے ہی پالیا۔ ایک خدائی قہر وانتقام تھا جو فوراً اسی وقت قدرت کی طرف سے لیاگیا۔ گورے بھیڑیوں کی شکل میں ایک طوفان بدتمیز تھا جو مسلسل چار دن تک اہالیان سرنگاپٹم خصوصاً ان اونچی اونچی حویلیوں میں رہنے والوں کا مال وزر، عزت ووقار، عورتوں کی عصمت و ناموس تک کو بہا لے گیا۔ سب کچھ ان غداران قوم وملت کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ ان چاردنوں میں وہاں پر جو کچھ بھی ہوا اس سے انسانیت کی روح بھی شرماگئی۔ اس سے سرنگاپٹم کا شاید ہی کوئی گھر (سوائے شاہی گھرانے کے) محفوظ رہا ہو۔ ایسے مواقع پر سب سے پہلے بڑے بڑے گھرانے ہی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ اہم گھرانوں پر فوجی پہرہ لگادینے کے باوجود خود محافظ ہی درندے، بھیڑئیے اور لٹیرے بن گئے۔ مجبوراً انگریز جنرل کو خود اپنے ہی چند سپاہیوں کو بطور عبرت تختہٴ دار پر لٹکانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

جہاں تک بدرالزماں نائطہ کی بیٹی سے ٹیپوسلطان کے نسبتی برادر برہان الدین کی شادی کا تعلق ہے وہ شادی ہوجانے کے بعد اسی رات دلہن نے خودکشی کی تھی۔ یہاں پر مسئلہ بدرالزماں نائطہ کی بیٹی کا سلطان ٹیپوسے یا ان کے کسی شہزادے سے شادی کا نہیں بلکہ سلطان کے نسبتی برادر برہان الدین کاتھا جو کہ لالہ میاں شہید چرکولی کا بیٹا تھا اوریہ اہل نوائط کے لئے غیرکفو میں سے ہونا (بقول طبری اہل نوائط کا تعلق اہل قریش سے ہے) تو کسی حد تک صحیح ہے، اس لئے کہ لالہ میاں کا تاریخی اعتبار سے قریشی النسب یا عربی النسل ہونا بھی ثابت نہیں ہے۔ اور مصنف تاریخ یمن کی تحقیق کے مطابق نوائط ملاحوں کا ایک قبیلہ ہے جو بغداد سے نومیل پر ایک مقام وائط ہے، وہاں کے تاجر بنووائط کہلائے جو بعد میں نوائط ہوگیا۔ راجح قول یہی معلوم ہوتا ہے اور قرائن بھی اسی کی شہادت دے رہے ہیں، ورنہ ایک عالی نسب قبیلہ کے دعویدار افراد سے ایسی غداری ممکن نہ تھی جو کہ ایک معمولی نومسلم ملک جہاں خاں کی وفاداری کا بھی مقابلہ نہ کرسکے۔

اور جہاں تک ٹیپوسلطان کے ایک داعی ومبلغ اسلام اور فراست ایمانی وحمیت دینی سے معمور ہونے کا ہے اس پراس کتاب میں ضرور کچھ روشنی ڈالی گئی ہے اور بجز دوسری کتابوں کے کچھ اضافہ ہوا ہے اور یہ ایک اچھی چیز ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ نواب حیدرعلی ناخواندہ تھے لیکن انھوں نے اپنے فرزند ٹیپوسلطان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی بلکہ ٹیپو کی دینی وعصری تعلیم و تربیت اور فنون عسکری وسپاہ گری میں قابلیت ومہارت کے لئے اس دور کے ماہرین علوم وفنون کو مختص کیا تھا، نیز انھوں نے اپنے دور کے بڑے بڑے علماء ومشائخ کو ملک کے مختلف گوشوں سے بلاکر اپنی قلمرو میں بسایا بھی تھا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ٹیپو اور ان کے آبا واجداد درحقیقت قریشی النسب ہی ہیں جو کہ مکہ کا مشہور اور نبوی خاندان ہے۔ تو ٹیپوکی حمیت دینی وفراست ایمانی کا اثبات اسی سے ہوجاتا ہے، اس کے لئے دور کی کوڑی لانے کی چنداں ضرورت نہیں رہی۔

من جملہ اس کتاب کے مطالعہ سے صرف یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ اہل نوائط پر غداری کا جو کلنک لگ چکا ہے ہر جائز وناجائز طریقہ سے اس کا ازالہ۔ درحقیقت مصنف خود اہل نوائط میں سے ہیں۔ بعض اوقات چھوٹے یا معمولی قسم کے داغ دھبے دھونے یا کھرچنے کی کوشش میں بعض بڑے قسم کے دھبے لگ جاتے ہیں۔ یہاں پر بھی یہی ہوا کہ بدرالزماں نائطہ کو چھوٹی غداری سے بچانے کی کوشش میں مہدی علی نائطہ کی بڑی غداری گلے کی ہڈی بن گئی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ کسی بڑے ادارے سے کتاب کے شائع کرادینے اور نامور افراد سے مقدمہ وغیرہ تحریر کرادینے سے اصلی تاریخی حقائق وواقعات چھپائے نہیں چھپتے۔ بہرحال غداری غداری ہی ہے اور اہل نوائط میں سے صرف بدرالزماں خاں اور مہدی علی خاں ہی سے ثابت ہورہی ہے تو ان دونوں ہی کو غدار گرداننا چاہئے نہ کہ پوری برادری کو، ورنہ یہ بات سراسر ظلم، دیانتداری اور انصاف کے عین اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔

_____________________________

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 93 ذیقعدہ 1430 ھ مطابق نومبر 2009ء